اسلام آباد: حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے اسٹرکچرل بینچ مارک کو پورا کرنے کے لیے سرکاری شعبے میں حتمی نجکاری، لیکوئڈٹی یا برقرار رکھنے کے لیے سرکاری شعبے کی کل 212 کمپنیوں میں سے 84 کو حتمی شکل دے دیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2018-19 میں ان تمام 84 سرکاری اداروں (ایس او ای) کا مجموعی ریونیو تقریباً 40 کھرب روپے رہا جبکہ ان کے اثاثوں کی کتابی مالیت 190 کھرب روپے ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق 2018-19 میں حاصل ہونے والی آمدنی برائے نام جی ڈی پی کے تقریباً 10 فیصد تھی جس سے 4 لاکھ 50 ہزار افراد (کل ورک افرادی قوت کا 0.8 فیصد) کو روزگار حاصل ہے۔

جاری کردہ ایک رپورٹ میں وزارت خزانہ نے کہا کہ مجموعی طور پر 25 ایس او ایز جنہوں نے مل کر 2018-19 میں 107 ارب روپے کا مجموعی منافع حاصل کیا، کو حکومت حاصل کرے گی۔

اس کے علاوہ 14 کمپنیوں کو سرکاری شعبے میں برقرار رکھا گیا ہے اور ان کی تنظیم نو کی جائے گی جبکہ 10 دیگر کمپنیاں پہلے ہی نجکاری کے پروگرام کے تحت تھیں اور 2023 سے 2024 کے درمیان اگلے مرحلے میں مزید 24 کمپنیوں کی نجکاری کی جائے گی۔

یہاں تقریباً 10 دیگر کمپنیاں ہیں جن کی نجکاری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ایک ادارہ، صنعتی ترقیاتی بینک لمیٹڈ، فی الحال لیکوئڈیشن میں ہے۔ وزارت نے کہا کہ چار کمپنیاں جن کا کل منافع 51 ارب 40 کروڑ روپے ہے، معاشی طور پر قابل عمل ہیں اور ان کو برقرار رکھا جائے گا۔

ان میں گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (34 ارب روپے کا منافع)، پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ (12 ارب 30 کروڑ روپے)، پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی (4 ارب 70 کروڑ روپے) اور پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (14 کروڑ 60 لاکھ روپے) شامل ہیں۔

وزارت نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ کی سہولت کے ایک حصے کے طور پر حکومت کی طرف سے ملکیت کے ایک مستقل مالکانہ استدلال کے ذریعے حکومت نے ان کی مستقل ملکیت اور کنٹرول کے لیے ایس او ای کے ایک جامع جائزہ لینے کی طویل المیعاد ضرورت کو دور کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘موجودہ وقت میں فنانس ڈویژن آئی ایم ایف اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ ایس او ای بل اور ایس او ای ملکیت اور انتظامی پالیسی کا مسودہ تیار کیا جاسکے تاکہ موجودہ ایس او ای گورننس اسٹرکچر میں موجود خامیوں کو پُر کیا جاسکے اور حکومت کو ایس او ای کی باخبر کارکردگی کی تشخیص اور نگرانی میں مدد ملے’۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضروری عوامی اشیا اور خدمات کی فراہمی میں ان کے اہم کردار کے باوجود متعدد ایس او ایز کی مالی کارکردگی عدم اطمینان بخش ہے۔

بتایا گیا کہ 2018-19 میں ان 84 کمرشل ایس او ایز نے مجموعی طور پر 143 ارب روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا جو 2017-18 میں 287 ارب روپے تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 6 سالوں میں تجارتی ایس او ایز میں سے ایک تہائی کو وقفے وقفے سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید یہ کہ سب سے زیادہ 10 نقصان اٹھانے والے ایس او ایز کے نقصانات کی رقم نے ہر سال ایس او ای پورٹ فولیو کے کل نقصانات میں 90 فیصد کے قریب حصہ ڈالا۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان ریلوے، پی آئی اے اور بجلی کے شعبے میں ڈسکوز 10 اہم نقصان میں مبتلا ایس او ایز میں شامل ہیں۔

Previous articleعالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے: پاکستان
Next articleایوان کا اعتماد حاصل نہ کرسکا توا پوزیشن میں بیٹھ جاؤں گا: وزیراعظم عمران خان