اسلام آباد: پاکستان نے عالمی بینک کے ساتھ گردشی قرضے کے انتظامات کے منصوبے کا نظرثانی شدہ خاکہ شیئر کیا ہے جس میں ٹیکسز کو منطقی بنایا گیا ہے، پرانے آزاد پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کے قبضے پر تبادلہ خیال اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے لیے پرانے پبلک سیکٹر کے تمام پلانٹ بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے تعینات کیے گئے وفاقی وزیر برائے خزانہ اور ریونیو شوکت ترین کی زیر قیادت اقتصادی وزرا اور عہدیداروں کی ٹیم نے ورلڈ بینک ایکسل وین ٹروٹسنبرگ کے منیجنگ ڈائریکٹر (آپریشنز) کے ساتھ ورچوئل اجلاس منعقد کیا۔
وفاقی وزیر برائے معاشی امور عمر ایوب خان، وزیر توانائی حماد اظہر، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر، معاون خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود، خزانہ، بجلی اور معاشی امور ڈویژنز کے سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے اجلاس میں شرکت کی۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے وزیر توانائی نے عالمی بینک کے ایم ڈی کو خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ناکارہ پاور پلانٹس کا خاتمہ کرکے نظام میں استعداد لانے کی توانائی کے شعبے میں جاری کوششوں سے آگاہ کیا۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے 3500 میگاواٹ کے بجلی گھر تقریباً 18 ماہ میں مکمل طور پر بند ہوجائیں گے جن میں سے آدھے بند ہوچکے ہیں۔
دوم نجی شعبے میں پرانے بجلی گھروں کو صارفین کے ٹیرف میں صلاحیتی چارجز کی مد میں ‘ٹیک اور پے’ اعتراضات کو مالیاتی مصنوعات کے ذریعے ٹیک اوور کرلیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تابش گوہر نے اس کو متحرک اور پائیدار بنانے کے لیے بجلی کے شعبے میں پیش کی جانے والی اصلاحات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بجلی کی پیداوار اور ٹرانسمیشن میں کارکردگی کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
ورلڈ بینک کے ایم ڈی کو بتایا گیا کہ حکومت نے بجلی کی فروخت پر عام سیلز ٹیکس کو بھی معقول بنانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ بجلی کمپنیوں اور بالآخر صارفین کے لیے ان پٹ تفریق کو ہٹا کر تقریبا 85 سے 100 ارب روپے کی بچت کی جاسکے۔
یہ بتایا گیا کہ پاور پلانٹس کے ذریعہ فراہم کردہ بجلی پر سیلز ٹیکس لگ بھگ 100 ارب روپے ہے تاہم اسی توانائی کے لیے آخر صارفین نے تقریباً دوگنی ادائیگی کی جس کو ہموار کیا جانا چاہیے۔
ایندھن کے ٹیرف پر لاگو مختلف ٹیکسز کو بھی اسی طرح سے تبدیل کیا جائے گا، اس سے ایف بی آر کی آمدنی میں کمی ہوگی تاہم بجلی کے بلوں میں تقریبا 85 پیسے یا ایک روپے فی یونٹ ریلیف ملے گا جبکہ اس کے مقابلے میں یونٹ میں 5.36 روپے اضافے کا عہد کیا گیا ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ نظر ثانی شدہ گردشی قرضوں کے انتظامات کا منصوبہ کابینہ کو منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن غیر متعلقہ سیاسی وجوہات کی بناء پر اس پر عمل نہیں کیا جاسکا۔
وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ عالمی بینک اصلاحات کے ایجنڈا اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے ہمیشہ سے پاکستان کا معاون رہا ہے اور توانائی، مالیاتی و قرضوں کے انتظام اور سماجی و اقتصادی ترقی جیسے کلیدی شعبوں میں پاکستان کا بڑا ترقیاتی شراکت دار ہے۔
وزیرخزانہ نے عالمی بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر کوملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال اورکووڈ 19 کی وبا سے متاثرہ معیشت میں تیزی لانے کے لیے حکومت کے اہم اقدامات پرروشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سخت مالیاتی نظم وضبط کے نتیجہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سرپلس میں تبدیل کرلیاہے۔
وفاقی وزیر برائے معاشی امور نے عالمی بینک کے ایم ڈی کومضبوط ومتحرک اداروں کے قیام اورانسانی کیپٹل میں سرمایہ کاری کے لیے اقدامات سے آگاہ کیا۔
عالمی بینک کے منیجنگ ڈائریکٹرنے توانائی کے شعبہ میں پائی جانیوالی مشکلات پرقابوپانے میں عالمی بینک کی معاونت جاری رکھنے کے عزم کااعادہ کیا اور کورونا وائرس کی عالمگیروبا کے دوران معاشرے کے غریب اورکمزورطبقات کو سماجی اور اقتصادی تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی کو سراہا۔
انہوں نے اسٹرکچرل اصلاحات کے عمل میں عالمی بینک کی معاونت جاری رکھنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔