‘میں اُس وقت ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ میری ماں بڑے اہتمام کے ساتھ ’ورجلی‘ تیار کیا کرتی تھی۔ میری ماں کو بھی میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ انہوں نے اپنی ماں کو یہ ذائقہ دار چاول تیار کرتے ہوئے دیکھا تھا‘، یہ کہنا ہے میری والدہ کا جنہوں نے 60ء کی دہائی میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ، ‘جس روز شام کے وقت ورجلی کھانے کا اہتمام ہوتا، تو کھیتوں سے 7، 8 اقسام کا ساگ اکھٹا کرکے گھر لایا جاتا۔ جس میں سرسوں، پالک، اورے (ساگ کی ایک قسم جس کا اردو نام میرے علم میں نہیں)، ہرا لہسن، ہرا دھنیا، مولی اور شلجم کے ہرے پتوں کو کترا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بیگمی چاول (یہ چاول کی ایک خاص قسم جو یوسفزئی پشتونوں کو بے حد پسند ہے) شامل کرکے ہانڈی چڑھائی جاتی۔

اس کے بعد دیسی گھی اور خالص دودھ اور ملائی کا بندوبست کیا جاتا۔ ایک بڑی سی قاب (تھال) میں اسے یوں پیش کیا جاتا کہ چاول کے ڈھیر کے اوپر دیسی گھی اور خالص دودھ کے لب ریز پیالے رکھے گئے ہوتے۔ خاندان کے سبھی افراد قاب کے گردا گرد بیٹھتے اور دیسی گھی اور دودھ سے چمچ بھر کر اپنے سامنے چاول پر ڈالتے اور مزے لے لے کر ورجلی تناول فرماتے۔‘

ہم زیریں سوات والے اس خاص پکوان کو ’ورجلی‘، بالائی سوات والے ’چوکانڑ‘، ضلع شانگلہ والے ’ساگونڑے‘، ضلع دیر والے ’مندرئی‘ یا ’شنے وریجے‘ (سبز چاول) جبکہ ضلع بونیر والے اسے ’غٹہ وریجہ‘ پکارتے ہیں۔

Previous articleایشیا کپ مسلسل دوسرے برس ملتوی، 2022 میں انعقاد کا اعلان
Next articleسیاسی جماعتوں کی سینیٹ کی اہم کمیٹیوں کی سربراہی پر نظر