وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آج ہم نے وہ قدم اٹھایا جو ثابت کرے گا کہ ہم جدید زراعت کی جانب جارہے ہیں، آج اجرا ہونے والا کسان کارڈ پاکستان کو تبدیل کردے گا۔

ملتان میں کاشت کاروں کے لیے کسان کارڈ کے اجرا کے لیے منعقدہ تقریب میں ان کا کہنا تھا کہ کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسے کتنا مضبوط کریں گے، اتنا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی طرف جاتے رہیں گے کرپشن نیچے آتی رہے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ صرف ہمارے دور میں کسانوں کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 500 روپے کا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس 500 ارب روپیہ آیا۔

انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ملنے والے گندم، مونگی، مکئی اور دودھ کی قیمت سے کسانوں کے پاس اضافی 11 سو ارب روپے کسانوں کے پاس گئے ہیں، سب سے زیادہ غربت دیہاتوں میں ہے اور اس طرح ہم تخفیف غربت کے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 12 سو ارب روپے دیہاتی علاقوں میں جانے کا مقصد ہے کہ وہاں حالات بہتر ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ پر ایک ہزار کی ڈی ایل پی پر سبسڈی دی جائے گی جس میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی ملے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس کسان کارڈ کے ذریعے ہم قرضے بھی دے سکیں گے اور جب قدرتی آفات کے سبب فصل تباہ ہوجاتی ہے تو ان کی بھی اس کارڈ کے ذریعے مدد کی جائے گی۔

وزیراعظم نے بتایا کہ پانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اس کے لیے 50 سال بعد 2 بڑے ڈیمز تعمیر کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے گا، اس کے علاوہ چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی بنائی جارہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے 30 ارب روپے کے ٹرانسفارمیشن پلان میں 200 ارب روپے صرف نہریں پکی کرنے کے لیے مختص ہیں، چینی

وزیراعظم نے بتایا کہ پانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اس کے لیے 50 سال بعد 2 بڑے ڈیمز تعمیر کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے گا، اس کے علاوہ چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی بنائی جارہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے 30 ارب روپے کے ٹرانسفارمیشن پلان میں 200 ارب روپے صرف نہریں پکی کرنے کے لیے مختص ہیں، چین کے ساتھ بات کر کے زراعت کو سی پیک میں شامل کردیا ہے کیوں کہ وہاں ہم سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے اس لیے ہم ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ‘ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی بہترین زرعی تحقیقاتی ادارے جو توجہ نہ ملنے کی وجہ سے نیچے چلے گئے تھے ان کی تجدید کی جارہی ہے اور دال، تیل کے بیج، سویابین، اسپغول ہم اب پاکستان میں اگانے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ انہیں ہم باہر سے درآمد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں زیادہ تر علاقہ پیداوار کے لیے موافق درجہ حرارت یعنی 15 سے 38 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے، اس کا مطلب ہم کچھ بھی اگا سکتے ہیں، ہم اللہ کی نعمتوں کا بہت زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں کہ ہمیں کوئی چیز درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کسان آج بھی وہی طریقہ کار استعمال کررہے ہیں جو موئن جو دڑو میں 5 ہزار سال پہلے رائج تھے، نئی چیزیں نہیں سوچی گئیں اس لیے ایکسٹینشن سروسز کو نجی اداروں کو دینے والے ہیں کیوں کہ حکومتی ایکسٹینشن سروسز نے بالکل ڈیلیور نہیں کیا۔

Previous articleکورونا ویکسی نیشن، 40 سال اور زائد عمر افراد کیلئے رجسٹریشن کا آغاز
Next articleسپریم کورٹ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل